براہوئی زبان و ادب ایک نظر میں
براہوئی زبان پر تحقیق کرنے والے اکثر معتبر ماہرین لسانیات ، محققین ، علما ئ اور دانشور اس حقیقت پر متفق ہیں کہ براہوئی زبان دراوڑی ہونے کی وجہ سے برصغیر پاکستان کا قدیم ترین زبان ہے۔ اپنی قدامتی اہمیت کے پیش نظر پاکستان کا قیمتی اوربیش بہا اثاثہ ہے۔ ہزار ہا سالوں سے اس خطے پر موجود اس کے لاکھوں بولنے والوں نے اسے ہر لحاظ سے محفوظ رکھا ہے نہ صرف اس کی لسانی اور زبان سے متعلق بنیادوں کو مضبوطی سے محفوظ رکھا ہے بلکہ اسے بلوچستان سے برادر صوبوں اور ملک تاک اپنے ساتھ لے کر پھیلتے رہے ہیں ۔
براہوئی زبان کی قدامت اور بنیاد کے متعلق روس ، امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی ، اٹلی ، ہندوستان، ڈنمارک اور پاکستان کے بین الاقوامی ماہرین لسانیات آثار قدیمہ کے ماہرین اور ماہرین بشریات نے اپنے تحقیق کاوشات سپرد قلم کی ہیں ۔ ان میں زیادہ اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ براہوئی زبان دراوڑی کنبہ کی زبان ہے۔ ان دراوڑی ماننے والے ماہرین و محققین میں سر جان مارشل، ایم بی ایمینیو ، آسکوپارپولا، ٹی برو، جی آرہنٹر ، بشپ کالڈویل،ایم ایس آندرونوف ،ڈینس برے،آرنسٹ مڈ کی، جی آر گرائرسن، مارک کنائر ، جی یوپوپ ، آرنسٹ ٹرمپ، پروفیسر جان ایوری ، رام سوامی، آرجی بلاخ، جی شرٹ، ڈاکٹر غلام علی الانا، عین الدین فرید کوٹی ، ڈاکٹر ابولحیث صدیقی ، محمد حسن ذانی، انور رومان، ڈاکٹری انعام الحق کوثر، کامل القادری، ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوئی ، براہوئی نور محمد پروانہ، ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، پروفیسر جاوید اختر، نذیر احمد شاکر براہوئی اور دوسرے شامل ہیں ۔
مگر اب کی جدید تحقیقات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ براہوئی زبان کی بنیاد قدیم دراوڑی زبان ہے۔ وہ ماہرین لسانیات جو براہوئی کو قدیم دراوڑی زبان قرار دیتے ہیں ان میں ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوئی ،ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، پروفیسر جاوید اختر اور نذیر احمد شاکر براہوئی شامل ہیں ۔ اس سلسلے میں پروفیسر جاوید اختر اپنی کتاب براہوئی ادب کا سماجی پس منظر میں لکھتا ہے کہ براہوئی زبان کب تحریری شکل میں آئی اس کا صحیح زمانہ تو معتین نہیں کیا جاسکتا مگر اس کا تخمینہ براہوئی زبان کا ماں اور اولین دراوڑی زبان کے عہدے سے لگایا جاسکتاہے۔جو موہن جو دڑو ، ہڑپہ ، مہر گڑھ، پیرک، پیریا نوغنڈی ، مغل غنڈی ، طوغاو ، نال ، اورناچ ، شاہی تمپ ، سریاب اور گزگ وغیرہ ہم کی دراوڑی تہذیب کے زوال سے قبل کئی صدیوں تک وسطی ایشیائ اور جنوبی ایشیائ پر مشتمل خطے میں علمی، ادبی ، تجارتی اور رابطے کی زبان کے طور مروج رہی ہے۔ جس کے شواہد ہمیں مذکورہ بالا تہذیب کے ساتھ ان مراکز سے برآمد ہونے والے آثار، کتبوں ، مہروں ، بتوں ، سکوں ، زیورات اور برتنوں وغیرہ ہم سے ملتے ہیں ۔ براہوئی زبان کا تعلق بھی چونکہ مذکورہ بالا زبان سے ہے۔ لہذا یہ بھی اس عہد میں ضرور تحریری زبان ہوگی۔ دراوڑی تہذیب کے زوال کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا زبان اور براہوئی میں پیدا ہونے والا ادب بھی زمانے کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہا۔ لہذا آج وہ ناپید ہے۔قدیم دراوڑی زبان بولنے والے والے موجودہ پاکستان کے جغرافیائی حدود میں مہر گڑھ کی بنیادرکھی جس کی قدامت سات تا نو ہزار سال قدیم ہے۔ دنیا کے آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان تہذیبوں کے اصل وارث دراوڑ ہیں ۔ اور پاکستان میں واحد براہوئی زبان بولنے والے دراوڑی ہونے کے ناطے ان کے وارث ہیں ۔ اس حوالے سے بہت سے محققین نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ارض پاکستان کی سب سے قدیم زبان "براہوئی" ہی ہوسکتا ہے۔
پاکستان ، روس، افغانستان ، ایران ، افریقہ، اور مشرقی وسطیٰ کے بہت سے ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں بود و پاش رکھنے والے براہوئی اپنی مادری زبان براہوئی بولتے ہیں ۔١٩٠١ کی مردم شماری میں صرف ہندوپاک میں ان کی تعداد تین لاکھ تھی۔ ١٩٧٢ اور ١٩٨١ میں مردم شماری لسانی بنیادوں پر نہیں ہوئی اور اس کے بعد جب براہوئی زبان کو سیاسی عتاب کے شکنجے میں لاکر اس کو لسانی درجے سے حذف کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے براہوئیوں کی اصل تعداد معلوم نہیں ہوسکتی۔١٩٠١سے لے کر اب تک ایک صدی بیت جانے کے بعد ساری دنیا میں براہوئیوں کی تعداد پچاس تا ساٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ اور صرف پاکستان میں ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق پنتیس تا چالیس لاکھ کے قریب ہے۔ براہوئی بولنے والوں کی اپنی ایک لسانی ، ثقافتی اور تہذیبی تشخص ہے۔ ان کا اپنا ایک رہن سہن اور مقامی قبائلی سسٹم ہے۔براہوئیوں کی تاریخ بھی قدیم ہے۔ ان کی ریاست قلات میں ایک باقاعدہ حکومت رہی ہے۔ان کا پہلا حکمران خان میر و خان اول براہوئی ١٢٩١ سے١٣١٦ تک کل٣٧ حکمران نے کل چھ سو ستاون برس ریاست قلات پر پورے سیاسی اور فوجی دبدبہ کے ساتھ حکمرانی کی۔ ریاست قلات میں براہوئیوں کا آخری حکمران خان میر احمد یار خان نے ریاست قلات، مملکت خداداد پاکستان میں ضم کرکے پاکستان کرکے پاکستانی ہونے کا ثبوت پیش کیا۔
براہوئی زبان کا ادب بھی تحریری طور پر سات سو برس قدیم ہے۔جس کی تاریخی ارتقائ کو معلوم کرنے کے لئے اسے چھ ادور میں تقسیم کیا جاتا ے۔ جس کا تفصیل درج ذیل ہے۔
١۔لوک ادب کا دور
٢۔قبل از تاریخ کا دور
(1292 to1666) ٣۔١٢٩٢ سے١٦٦٦ تک کا دور
(1666 to1883) ٤۔١٦٦٦ سے١٨٨٣تک کا دور
(1883 to1947) ٥۔١٨٨٣ سے١٩٤٧ تک کا دور
(1947 to Now) ٦۔١٩٤٧ سے اب تک کا دور
١۔پہلا دور لوک ادب
زبان کے عام اصولوں کے مطابق براہوئی زبان کے ادب کی ابتدائ بھی لوک ادب سے ہوتی ہے۔ جس کی تاریخ بہت طویل اور قدیم ہے۔ جو کئی نسلوں سے جاری سینہ بہ سینہ اگلے نسلوں کو منتقل ہوتا آرہا ہے۔ اس کی ترتیب و تدوین جاری ہے۔ جو نثر اور نظم پر مشتمل کئی اصناف کی صورت میں زیور طباعت سے آراستہ ہوتا آرہا ہے۔ براہوئی زبان اپنی لوک ادب کے حوالے سے بہت امیر اور جاندار ہے۔ براہوئی زبان کا لوک ادب کافی متنوع اور پر کشش ہے۔
ا۔لوک شاعری کا اصناف اپنے بحور و اوزان، منفرد مزاج اور تیکنیک کے حوالے سے درجہ بندی پارہے ہیں ۔ ان اصناف میں مزاحیہ منظومات ، عشقیہ اور رزمیہ شاعری ، لوریاں ، لوک گیت ، ہائیکو وغیرہ شامل ہیں ۔
ب۔منشور لوک ادب جس میں لوک کہانیاں ، تلمیحات، ضرب الامثال، پہیلیاں ،لطائف اور قصے وغیرہ شامل ہیں ۔ براہوئی زباں کے لوک ادب پر جن محقیقین اور دانشورروں نے تحقیقی اور تاریخی کتب شائع کی ہیں ان میں ٹی جے ایل میئر، ڈینس برے، جمعیت رائِ ، لیفٹیننٹ آرلیچ، کیپٹن نکلسن، مولوی اللہ بخش ،حافظ سلطان احمد،ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوئی ، ایم صلاح الدین مینگل، ایم افضل مینگل، ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، سوسن براہوئی ،عظیم جان وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔
٢۔ قبل از تاریخ کا دور
براہوئی ادب کا مذکورہ دور ایک وسیع حصے پر محیط ہے۔ اس دور کا اس لیے ذکر کیا جاتا ہے کہ اس میں کچھ ایسے جملے ملے ہیں جو مکمل طور پر براہوئی زبان ک ہیں جس سے براہوئی زبان کی قدامت اور لسانی شواہد دستیاب ہو سکتے ہیں ۔
(الف)سکندر اعظم کے دور کے ایک سکے پر ’’براہوئی مش نا سپاہی سکندر نا‘‘ یعنی براہوئی پہاڑوں کا سپاہی سکندر کا کندہ ہے۔
(ب)کجولاکدفیزس(٠٤ئ تا ٨٧) کے دور میں براہوئی زبان خروشتی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔ ان کو دور یا بعد کے قریب دور کے سکوں پر براہوئی زبان کے جملے اور الفاظ درج ہیں ۔ مثلا ’’مش وارا‘‘ یعنی پہاڑوں کا مالک، اور مہاراجا سے راجاتا راجا سے، دو پوترا سے، کجولاکدفیزا سے یعنی ایک مہاراجا ہے،راجاوں کا راجا ہے، دواپوترا ہے ، کجولاکدفیرس ہے۔
ان کے علاوہ اس دور کے بعد بھی کئی حکمرانوں کے کئی سکوں پر اسی طرح کے براہوئی زبان کے جملے کندہ ہیں ۔
(1292 to1666)٣۔١٢٩٢ سے ١٦٦٦ تک کا دور
براہوئی ادب میں یہ بنیادی اور شروعاتی دور شمار کیا جاتا ہے۔ جس میں ہمیں اسلامی دینی اور تعویذات کے تحریری مسودات کے قلمی نسخے کتابوں کی شکل میں ملے ہیں ۔ جن میں پہلا ملا فقیر محمد کا ’’خدمت دین‘‘ نامی کتاب ہے۔ جو انہوں نے ٨٠٩ھ/١٢٩٢ میں لکھا ہے۔ دوسرا ’’تحفہ شہ میچڑا یا مجہول الاسم ‘‘ ہے جو ٨١٠ھ/١٣٩٣ میں لکھا گیا ہے ۔ تیسرا ’’عملیات گہربا براہوئی ‘‘ نامی کتاب ہے جو ١٣ ربیع الاوّل ٩٨٠ھ/١٤٧٢ میں تحریر کیا گیا ہے۔ یہ تینوں کتابیں براہوئی قدیم نثری ادب کا بنیادی اثاثہ ہیں ۔ جواب تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکے ہیں ۔
(1666 to1883) ٤۔١٦٦٦ سے ١٨٨٣ تک کا دور
اس دور میں ہمیں تیسرے دور سے ہٹ کر شاعری ادب ملتی ہے۔ جو کہ یہ بھی اسلامی طرز کی ہے۔ اس دور میں دو شاعر قابل ذکر ہیں ۔ جن میں سندھ کا ع عظیم صوفی شاعر شا ہ عبداللطیف بھٹائی (١٦٨٩ئ١٧٥٢) ہے جنہوں نے براہوئی زبان میں کچھ اشعار کہہ چکے ہیں ۔اور اسی طرح سندھی کے بعض اشعار کے ساتھ براہوئی الفاظ کا بھی استعمال کیا ہے۔ دوسرا شاعر مُلا ملک داد قلاتی ہے جو بنیادی طور پر پٹھانوں کے غرشین قبیلے سے ان کا تعلق تھا۔ لیکن نامور براہوئی حکمران خان اعظم ولی نصیر خان نوری کے دور (١٧٤٩ئ١٧٩٤)میں براہوئی دھرتی پر ہونے کی وجہ سے انھوں نے براہوئی زبان میں شاعری کو ترجیح دی اور براہوئیوں کو قلمی اسلامی تبلیغ کو کوشش کی۔ انھوں نے تحفتہ العجائب نامی کتاب ١٧٦٠ میں رقم کی۔ جس کو تقریباً ڈیڑھ سو برس بعد مولانا نبو جان قلندراڑی نے ١٩٠٥ میں دریافت کرکے زیور طباعت سے آراستہ کیا۔
اس دور کے اواخر اور انیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں انگریزوں کی بلوچستان میں آمد ہوئی۔ اس حوالے سے انہوں نے براہوئی ادب، لسانیات، گرائمر ، لغت اور دوسرے اضاف پر تحقیقی کام کے ساتھ ساتھ لوک ادب کا اکٹھا کرکے شائع کراتے رہے۔ اس دور میں جو مستشرقین سیاحوں کی حیثیت میں یہاں آئے براہوئی زبان پر تحقیقی کام کیا۔ ان میں ہنری پوٹنجر ، لیفٹیننٹ آرلیچ، چارلس میسن ، کرسٹیان لاسن ، رابرٹ کالڈویل، آرنسٹ ٹرمپ ، جی شرٹ ، میک گریکر، ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر ، فلیچے فنزی ، واٹر بیلو، سر جارج کیمبل اور دوسرے شامل ہیں ۔
(1883 to1947) ٥۔١٨٨٣ سے ١٩٤٧ تک کا دور
براہوئی ادب میں اس دور کو سنہری دورگردانا جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس دور میں انگریز مشینری نے یہاں کے براہوئی مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے اپنا زبانی ، تحریری اور دیگر ہتھکنڈوں سے تبلیغ شروع کیا۔ جس کے خلاف مولانا فاضل درخانی جسے اپنے دور کا شیخ البلوچستان مانا جاتاہے۔ اور ان کے دور کو براہوئی ادب کا نشاۃ الثانیہ قرار دیا جاتا ہے ۔ انگریز مشینری کے خلاف سینہ سپر ہوکر مقابلہ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ١٨٨٣ میں ’’ مکتبہ درخانی‘‘ کی بنیاد رکھ کر سینکڑوں شاگرد پیدا کئے۔ آگے جا کر ان میں سے صاحب علما، ادبائ ، شعرائ نے دین اسلام کی قلمی تبلیغ کو اپنا نصب العین بنایا۔ سینکڑوں کتابیں تصنیف و تالیف اور ترجمہ کرکے اپنے مقصد کی برآوری تاک مصروف عمل رہے۔ ان کی ان کوششوں سے ایک طرف مسلماں عیسائیت کی غلبہ سے محفوظ رہے اور انگریز مشینری کے مبلغ اپنے مقصد میں ناکام ہوئے۔ دوسری جانب براہوئی ادب کو ایک کثیرو عظیم اثاثہ نصیب ہوا۔ مولانا محمد فاضل درخانی کے ان شاگردوں میں مولانا عبدالحئی درخانی، مولانا حاجی نبو جان، مولانا عبدالمجید ، مولانا محمد دین پوری دیگر شامل ہیں ۔ مولانا محمد دین پوری براہوئی ادب میں ایک علامہ کی حیثیت سے یاد کئے جاتے ہیں ۔ وہ ایک نامور عالم دین، مبلغ ، مقرر اور خطیب ہونے کو علاوہ ایک نامور مترجم، ادیب ، شاعر ، دانشور ، صحافی بھی تھے۔ اُنھوں نے 1947میں پہلی بار قرآن مجید فرقاں فرقاں حمید اور صحاہ ستہ کا براہوئی میں ترجمہ کیا۔ اس قرآن پاک کے نسخے 1916 میں لاہور سے چھپ گئے۔ اسی طرح اُنھوں نے قرآن پاک کے کئی سپاروں کے تفاسیر بھی براہوئی میں تحریر کیں ۔ 1925 میں ’’الحق‘‘ کے نام سے ایک رسالہ کا بھی اجرائ کرکے براہوئی میں صحافت کی بنیاد رکھی۔ 1926میں ’’ریل نامہ‘‘ کے نام سے ایک سفر نامہ لکھ کر براہوئی ادب میں سفر نا مہ کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں تقریباً بیاسٹھ کے قریب کتابیں تحریر کرکے براہوئی ادب میں کثر التصانیف قلمکار کا درجہ حاصل کیا۔ اس لئے اُنھیں براہوئی ادب میں شمس العمائ بھی کہتے ہیں ۔
اس دور میں اور بہت سے نامور شاعر اور ادیب ہوگزرے ہیں جن میں رومانوی شاعر ’’ بُلو جو ماہ گل‘‘ کے نام سے ایک رومانوی منظم داستان تالیف کرکے براہوئی میں پہلی رومانوی قصے کو تاریخ کے حوالے کیا۔
اصلاحی شاعر بشام ، قومی شاعر ریکی ، مزاحمتی شاعر ملا مزار بدوزئی ، مزہبی شاعر محمد صدیق پنجگوری ، شاعر ہفت زبان ملا محمد حسن براہوئی ، عبداللہ درخانی ، ملا روشن الدین ، فیض محمد فیصل ، قیصر خان فقیرزئی، مراد علی رئیسانی ، سیددادن شاہ، عبدالکریم مینگل اور تاج محمد تاجل، جوہر براہوئی زبان کا پہلا فکری اور مشہور زمانہ صوفی اور وحدت الوجود فکر کے پیروکار اور خودی کے پرستار تھے۔
اس دور میں مستشرقین بھی براہوئی ادب ، لسنیات ، تاریخ لغت اور دوسرے مضامین تحقیق و تحریر کرتے رہے۔
(1947 to Now) ٦۔١٩٤٧ سے اب تک کا دور
براہوئی ادب میں اس دور کو جدید دور کہا جاتا ہے اور بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ جب پاکستان وجودمیں آیا تو براہوئی ادب نے بھی ہوا کے اس دوش ایک نیا رخ اخیتار کیا اور اس میں ترقی کی ایک تحریک آئی ۔ اس دور میں براہوئی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے پہلی دفعہ ایک ادبی ادارہ ’’براہوئی اکیڈمی پاکستان‘‘ کے نام سے وجود میں آیا۔ اس ادارے نے تحقیقی ، تدوین، تراجم اور تخلیقی سینکڑوں کتابیں چھپوائیں ہیں ۔ صوبے کی حد سے لیکر قومی اور بین الاقوامی سیمیناریں منعقد کروائی ہے۔ ادبی مباحثوں ، تنقیدی نشستوں اور مشاعروں کا اہتمام بھی کرتا رہا۔ گوکہ ابتدائ سے اس ادارے کا مرکز کوئٹہ رہا ہے۔ لیکن اس کے برانچز ، مستونگ ، نوشکی ، قلات ، سوراب ، خضدار، حب ، ڈیرہ مراد جمالی ، اوستہ محمد اور سندھ میں بھی اپنے خدمت سر انجام دیتے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ادارے سے براہوئی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے خدمت انجام دیتے رہے ہیں ۔ ان میں براہوئی ادبی سوسائٹی پاکستان، براہوئی آرٹس اکیڈمی کوئٹہ ، براہوئی پبلی کیشن فرید آباد سندھ ، راسکو ادبی دیوان نوشکی ، بزم مولائی شیدائی جیکب آباد ، رابعہ خضداری آرٹس اکیڈمی خضدار، ایلم ادبی کاروان کوئٹہ ، چلتن ادبی دیوان مستونگ ، تعمیر ادب بلوچستان مستونگ ، گودی آرٹس اکیڈمی حیدر آباد، ہوتک ادبی دیوان مستونگ ، کردگاپ ادبی دیوان مستونگ، قیقان ادبی دیوان قلات، ادارہ ادب لاڑکانہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔ اسی طرح اس دور میں براہوئی زبان کے رسائل و جرائد اور اخبارات کا بھی براہوئی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے ایک رول رہاہے۔ جن میں ایلم مستونگ ، نوائے وطن کوئٹہ، بلوچی کراچی ، معلم کوئٹہ ، اُولس کوئٹہ ، براہوئی احوال خضدار، سنگت فرید آباد ، کپوت جیکب آباد، طوطکی کوئٹہ ، دے ٹک کوئٹہ، توار کوئٹہ، ہربوئی قلات، گودی حیدر آباد ، کھیر تھر جیکب آباد سندھ، القلم مستونگ، ضمیر مستونگ، روزنامہ اعتماد کوئٹہ ، شال کوئٹہ، کوہستان کوئٹہ، تعمیر بلوچستان کوئٹہ ، کاشتکار کوئٹہ ،خوشبو کوئٹہ ،احوال سبی ،شروخ، گروک ، استار سوراب ، ہتم قلات اور مہر نوشکی ، بلوچستان ریویو بلوچستان اسٹڈی سینٹر بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ دیگر کالجوں کے جرائد میں براہوئی کا حصہ وغیرہ غیرہ۔
مذکورہ بالا ناموں میں ایک اخبار ہفت روزہ ایلم مستونگ بابائے براہوئی صحافت نورمحمد پروانہ کی ادارت میں براہوئی زبان و ادب کا متعارف کرانے میں ایک مربوط ، منظم اور وسیع کام سر انجام دیا ہے۔اس کا جاری ہونے سے براہوئی ادب میں لسانیات، تحقیق ،تاریخ،آثار قدیمہ، لوک ادب، ناول،افسانے،انشائیے،قصے کہانیاں ، جدید و قدیم شاعری تازہ ترین ادبی رپورٹس تبصرے ، سفرنامے، غرض کہ تمام جدید اصناف پر براہوئی اور اردو میں تحریریں شائع ہوئیں ۔ یہ اخبار تا حال باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے۔ اب الحمداللہ براہوئی کا واحد روزنامہ کے طور پر اس کا اجرائ ہورہا ہے۔ اس اخبار نے اپنے شروعاتی اور درمیانی دور میں ایک نیٹ ورک کی حیثیت اختیار کی۔ نور محمد پروانہ کی قدر شناسی، قدردانی، حوصلہ افزائی اور شفقت سے نوجوانون کی ایک بڑی کھیپ نے براہوئی ادب میں قدم رکھا ان میں ہر ایک نے اپنی مزاج اور صلاحیتوں کے مطابق مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرکے براہوئی ادب کو ایک بہت بڑا سرمایہ فراہم کیا۔ اس دور میں براہوئی زبان کے محققین اور ماہرین لسانیات نے تحقیق کام کرکے براہوئی ادب میں تحقیق کی بنیاد استور کیں ۔ انہی کاوششوں کے ذریعے یورپ اور دیگر ممالک کے محققین نے اپنی تحقیقی کاوشات پیش کیں ۔
اس دور میں براہوئی ادب میں نئے نئے ادبی اصناف پر جدید طور طریقوں سے تجربات کئے گئے۔ ١٩٩٠ کے بعد سندھ اور بلوچستان میں تین درجن سے زیادہ سیمینار منعقد ہوچکے ہیں ۔ جن میں سے ٢٠ تک جوہر براہوئی کے زیر نگرانی منعقد ہوئے ہیں ۔ ایک توان سیمیناروں سے براہوئی زبان و ادب کو سمجھنے اور لکھنے کا رجحان بڑا۔ دوسری جانب ان سیمیناروں میں مقالات پیش کئے جانے تھے۔ اکثر زیور طباعت سے بھی آراستہ ہوتے رہے ہیں ۔ اس طرح براہوئی ادب میں تحقیق کو فروغ ملا اور سینکڑوں کتابیں منظر عام پر آئیں ۔
اس سلسلے میں الیکٹرونکس میڈیا کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتاکہ ریڈیوپاکستان کے کوئٹہ اور خضدار اسٹیشنوں سے براہوئی کے مختلف پروگراموں میں ادبی مباحثوں ، مشاعروں کے علاوہ ڈراموں کے نشر ہونے سے اور اسی طرح پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر سے باقی پروگراموں ، پی ٹی وی بولان سے براہوئی میں دو گھنٹوں کے پروگرام سے براہوئی زبان پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ براہوئی تعلیمی اداروں میں ایک مضمون کی حیثیت سے اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ جس سے طلبہ میں براہوئی ادب شے شغف پیدا ہوتا رہا ہے۔ بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ کی جانب سے باقاعدہ یا پرائیویٹ ادیب ، عالم اور فاضل براہوئی کے امتحان ہوتے ہیں اور پاس ہونے پر سرٹیفکیٹ دی جاتی ہے۔ میٹرک ، ایف اے اور ایم اے تک براہوئی تعلیمی اداروں میں بحیثیت اختیار مضمون بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحانوں میں بھی رائج ہے۔ اس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈاکٹریٹ ہولڈرز بھی موجود ہیں ۔ اس وقت بھی بلوچستان یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا جاتا ہے۔